Al_Fareed System of Schools

A Step to progress.

Meet our team

Our comprehensive suite of professionals caters to a diverse team, ranging from seasoned architects to renowned engineers.

Director

Founder, CEO & Architect

Rhye Moore

Engineering Manager

Helga Steiner

Architect

Ivan Lawrence

Project Manager

A passion for creating spaces

Our comprehensive suite of professional services caters to a diverse clientele, ranging from homeowners to commercial developers.

Biniya Meen Chishti

Biniya Meen Chishti is a Diracator of Alfareed Educational Complex

Continuous Support

Experience the fusion of imagination and expertise with Études Architectural Solutions.

App Access

Experience the fusion of imagination and expertise with Études Architectural Solutions.

Consulting

Experience the fusion of imagination and expertise with Études Architectural Solutions.

Project Management

Experience the fusion of imagination and expertise with Études Architectural Solutions.

Architectural Solutions

Experience the fusion of imagination and expertise with Études Architectural Solutions.

An array of resources

Education is not only books reading, education is process to learn how live in society.

Activities

  • Historical places tours.
  • Good evaluation.
  • Best test System.
  • Best Learning atmosphere.
Tourist taking photo of a building
Windows of a building in Nuremberg, Germany

Études Newsletter

  • A world of thought-provoking articles.
  • Case studies that celebrate architecture.
  • Exclusive access to design insights.

شکوہِ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہےکہ ہم اپنے حصہ کی کی کوئی شمع ہی جلاتے جائیں


Seek knowledge from the cradle to the grave.”
ماں کی گود سے گورتک علم حاصل کرو۔

ASS

CEO, Biniya Meen Chishti

Watch, Read, Listen

Join 900+ subscribers

Stay in the loop with everything you need to know.

عاجزی انکساری


عجز وانکساری

عاجزی و انکساری انسانی زندگی کا  اہم پہلو ہے  اس کے بغیر انسان نا مکمل ہے۔ انسان کو انسان رہنا چاہیے  نہ وہ خدا ہے اور نہ اسے اپنے اندرکسی خدائی صفت  کی خواہش کرنی چاہیے ۔ایک انسان دوسرے انسان کو کیا دے سکتاہےاگر ایک انسان کچھ دیتاہے تو وہ اللہ کے عطا کیئے ہوے سے دیتا ہے۔اگر وہ واحد ہُ لا شریک دے سکتاہے  تو واپس  بھی لے سکتا ہے۔  اگر اللہ تعالیٰ کسی دیتا  ہے تو بھی آزماتا ہے اور لیتا ہے تو بھی آزماتاہے۔  اس طرح ہر کام میں اللہ اور اس کے بندوں کےساتھ چلنا  ہی عاجز و انکساری ہے۔ اللہ ہی  تو انسان کا واحد سہارہ ہے جب ہر کوئی ٹھکرا دیتا ہے تو وہی سہارہ انسان کی ہر جگہ پہ کام آتاہے ۔

عاجزی وانکساری کی تعریف :

عاجزی وہ ظرف ہے جو دوسروں کی محنت اور کوشش پر ان کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ ان کی جائز تعریف اور اجرت فوری طور پر ادا کرتا ہے۔ عاجزی اس آگہی کا نام ہے کہ جو بندے کو یہ سبق سکھائے کہ میں پہلے اللہ تعالیٰ کا اور پھر کسی نہ کسی صورت میں انسانوں کا بھی محتاج رہوں گا‏

لوگوں کی طبیعتوں اور ان کے مقام ومرتبے کے اعتبار سے ان کے لیے نرمی کا پہلو اختیار کرنا اور اپنے آپ کواللہ کے سامنے حقیر وکمتر اور چھوٹا خیال کرنا عاجزی وانکساری کہلاتا ہے۔‏اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میں اِرشاد فرماتا ہے:

( اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵))(پ۲۲، الاحزاب: ۳۵)ترجمۂ کنز الایمان: بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے اور ایمان والیاں اور فرمانبردار اور فرمانبرداریں اور سچے اور سچیاں اور صبر والے اور صبر والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد‏کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔(نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۸۱،۸۲)

(حدیث مبارکہ)عاجزی کرنے والے کے لیے بلندی:

حضرت سیدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہِ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلَاۃِ وَالتَّسْلِیْمنے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے عاجزی کرتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے بلندی عطا فرما تا ہے۔‘‘

‏‏عاجزی وانکساری کاحکم:

اپنے آپ کو تکبر سے بچانا اور عاجزی وانکساری اختیار کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے، البتہ دیگر اَخلاق کی طرح عاجزی کے بھی تین درجے ہیں: (۱) اگر عاجزی ایسی ہو جس میں زیادتی کی طرف میلان ہو تو اسے تکبر کہتے ہیں اور یہ ناجائز وحرام وجہنم میں لے جانے والا مذموم کام ہے۔ (۲) اگر عاجزی ایسی ہو جس میں کمی کی طرف میلان ہو تو اسے کمینگی وذلت کہتے ہیں مثلاً کسی عالم دِین کے پاس کوئی موچی آئے اور وہ اس کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دے اور اسے اپنی جگہ بٹھائے، پھر آگے بڑھ کر اس کے جوتے سیدھے کرے اور پیچھے پیچھے دروازے تک جائے تو اس عالم نے ذلت ورسوائی کو گلے لگایا۔یہ ناپسندیدہ بات ہے بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں اعتدال پسندیدہ ہے یعنی ہر حقدار کو اس کا حق دیا جائے۔ اس طرح کی عاجزی اپنے ساتھیوں اور ہم پلہ لوگوں کے ساتھ بہتر ہے۔عام آدمی کے لیے عالم کی طرف سے تواضع اسی قدر ہے کہ جب وہ آجائے تو کھڑے ہو کر اس کا استقبال کرے،خندہ پیشانی سے گفتگو کرے، اس کے سوال کا جواب دینے میں نرمی برتے، اس کی دعوت قبول کرے، اس کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرےاور خود کو اس سے بہتر نہ سمجھے، بلکہ دوسروں کی نسبت اپنے بارے میں زیادہ خوف رکھے نیز اسے حقارت کی نظر سے دیکھے نہ ہی چھوٹا سمجھے، کیونکہ اسے اپنے انجام کی خبر نہیں۔(۳) اگر عاجزی ایسی ہو کہ جس میں میانہ روی ہو یعنی اپنے ہم پلہ اور کم مرتبہ لوگوں کے ساتھ برابر کی عاجزی کرے، نہ تو خود کو ذلت وکمینگی والی جگہ پر پیش کرے، نہ ہی بلندی کی طرف میلان ہو تو ایسی عاجزی شرعاً محمود یعنی قابل تعریف، باعث اَجروثواب اور جنت میں لے جانے والا کام ہے۔[3](نجات دلانےوالے اعمال کی معلومات،صفحہ۸۲، ۸۳)

عاجزی کا ذہن بنانے اور اپنانے کے گیارہ (11)طریقے:

(1) عاجزی کی فضلیت:عاجزی کرنے والے کے لیے فرشتے بلندی کی دعا کرتے ہیں۔٭عاجزی کرنے والے کے لیے خوشخبری ہے۔٭ عاجزی کرنے والے بروز قیامت منبروں پر بیٹھے ہوں گے۔٭ اللہ عَزَّ وَجَلَّ جسے محبوب رکھتا ہے اسے عاجزی بھی عطا فرماتا ہے۔٭عاجزی کرنے والے کو ساتویں آسمان تک بلندی عطا کی جاتی ہے۔٭عاجزی کرنے والے پراللہ عَزَّوَجَلَّ رحم فرماتا ہے۔[4] مزید فضائل کے لیے حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کی مایہ ناز تصنیف ’’اِحیاء العلوم‘‘جلدسوم، ص۹۹۹سے مطالعہ کیجئے۔

(2)عاجزی سے متعلق بزرگان ِ دین کے اقوال :

امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: ’’بندہ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لیے عاجزی اِختیار کرتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی لگام بلند کرتا ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے مقرر فرشتہ کہتا ہے :اٹھ کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تجھے بلندی عطا فرمائے۔‘‘

اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں: ’’تم لوگ افضل عبادت یعنی عاجزی سے غافل ہو۔‘‘

سیدنا یوسف بن اسباط رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’زیادہ کوشش اور مجاہدے کی بنسبت تھوڑی عاجزی کافی ہے۔‘‘

سیدنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: ’’عاجزی یہ ہے کہ تم حق کے سامنے جھک جاؤ اور اس کی پیروی کرو اور اگر بچے یا کسی بڑے جاہل سے بھی حق بات سنو تو اسے قبول کرو۔‘‘

سیدنا عبداللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’اصل عاجزی یہ ہے کہ تم دنیوی نعمتوں میں اپنے سے کمتر کے سامنے بھی عاجزی کا اظہار کرو حتی کہ تم یقین کرلو کہ تمہیں دنیوی اعتبار سے اس پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔‘‘

(3)عاجزی اختیار نہ کرنے کے نقصانات :

حضرت سیدنا قتادہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’جس شخص کو مال، جمال، لباس یا علم دیا گیا پھر اس نے اس میں عاجزی اختیار نہ کی تو یہ نعمتیں قیامت کے دن اس کے لیے وبال ہوں گی۔ حضرت سیدنا کعب الاحبار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار فرماتے ہیں: ’’جو بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمت پر شکر ادا نہ کرے اور نہ ہی عاجزی کرے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس بندے سے اس کا دنیوی نفع بھی روک دیتا ہے اور اس کے لیے جہنم کا ایک طبقہ کھول دیتا ہے، اب اللہ عَزَّ وَجَلَّ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو معاف کردے۔حضرت سیدنا زیاد نمیری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَلِی فرماتے ہیں: ’’زہد و تقویٰ اپنانے والا عاجزی کے بغیر بے پھل درخت کی طرح ہے۔‘‘حضرت سیدنا ابوعلی جوزجانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں: ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ جس شخص کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہے اس سے تواضع، خیر خواہی اور قناعت کو روک دیتا ہے۔‘‘[6]عاجزی کی ضد تکبر ہے جب تک آپ تکبر کے اسباب کی معلومات حاصل کرکے ان کا علاج نہیں کریں گے تب تک آپ کی ذات میں عاجزی پیدا نہیں ہوگی۔تکبر کی چند علامات یہ ہیں: 

٭منہ پھلالینا، ترچھی نظروں سے دیکھنا، سرکو ایک طرف جھکانا،

٭جب تک اس کے پیچھے چلنے والا کوئی نہ ہو وہ نہ چلے۔

٭متکبر دوسروں کی ملاقات کے لیے نہیں جاتا۔

٭متکبر اپنے قریب بیٹھنے والے سے نفرت کرتا ہے۔

٭ متکبر مریضوں اور بیماروں کے پاس بیٹھنے سے بھاگتا ہے۔

٭متکبر گھر میں اپنے ہاتھ سے کوئی کام نہیں کرتا۔

٭متکبر گھرکا سودا خود نہیں اٹھاتا۔

٭ متکبر ادنیٰ لباس نہیں پہنتا۔ متکبر اپنے حسن وجمال اور طاقت وقوت پر فخر کرتا ہے۔

٭متکبر اپنے علم پر بھی تکبر کرتا ہے۔ یہ تکبر کی علامات ہیں لیکن جس میں یہ علامات پائی جائیں ضروری نہیں کہ وہ متکبر بھی ہو، اِس لیے کسی بھی مسلمان کی ذات میں اِن علامات کے ہوتے ہوئے اسے متکبر سمجھنا یا اسے متکبر کہنا شرعاً ناجائز وحرام ہے۔

خود پسندی سے اجتناب:‏ یہ خود پسندی ہے جو باطنی بیماری ہے، یہ ناجائز وممنوع وگناہ ہے، جب بندہ خود پسندی میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پھر عاجزی واِنکساری اس سے رخصت ہوجاتی ہے، لہٰذا خود پسندی سے اپنے آپ کو بچائیے تاکہ عاجزی وانکساری پیدا ہو۔

(7)محاسبۂ نفس کیجئے:عموماً بندے کے سامنے جب اس کی خوبیاں ہی بیان ہوں تو وہ تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے اور عاجزی اختیار نہیں کرتا کیونکہ عاجزی تو اپنی خوبیوں کو کم جاننے اور خامیوں کو زیادہ جاننے کا نام ہے۔لہٰذا محاسبۂ نفس کرے کہ اِس طرح اس کی خامیاں سامنے آجائیں گی اور اس کے لیے عاجزی کرنا آسان ہوجائے گا۔ حضرت سیدنا ابو سلیمان دارانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں: ’’بندہ اس وقت تک عاجزی نہیں کرسکتا جب تک اپنے آپ کو پہچان نہ لے۔‘

ہرمسلمان کو اپنے سے اعلیٰ وبرتر جانیے: جب بندہ اپنے آپ کو کسی سے اعلیٰ وبرتر جانتا ہے تو تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے، عاجزی اختیار نہیں کرسکتا، لہٰذا ہرمسلمان کو اپنے سے اعلیٰ وبرتر جانیے کہ اس طرح دل میں عاجزی وانکساری پید ا ہوگی۔حضرت سیدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِینے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو عاجزی کیا ہے؟ عاجزی یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے نکلو تو جس مسلمان کو دیکھو اسے اپنے سے اَفضل گمان کرو۔‘

(9)زبان کا روزہ رکھنا:دِل کے جذبات کا اظہار زبان سے ہوتا ہے اسی لیے زبان کو دل کا ترجمان کہتے ہیں، یہی‏وجہ ہے کہ جن اَفراد کے دل عاجزی سے بھرپور ہوتے ہیں وہ زبان کا روزہ رکھتے ہیں یعنی فضول گفتگو سے بچتے ہوئے فقط کام کی گفتگو ہی کرتے ہیں، جبکہ عاجزی سے خالی دل رکھنے والا شخص سننے سے زیادہ دوسروں کو سنانے کی کوشش کرتا ہے دراصل یہ رویہ اپنی برتری ظاہر کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے لہٰذا اگر آپ اپنے اندر عاجزی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو زبان کا روزہ ضروری ہے ۔

شکریہ کے ساتھ غلطی قبول کرنا:‏عاجزی وانکساری پیدا کرنے میں یہ بات نہایت ہی مددگار ہے، بندہ جب اپنی غلطی کو شکریہ کے ساتھ تسلیم کرتا اور اس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو اُس کا نفس خود بخود عاجزی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندے کبھی بھی اپنی خامیوں کا دفاع نہیں کرتے بلکہ اپنی غلطی کو قبول کرکے اس کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں، ایسے لوگ اگر بھول جائیں تویاد آنے پر نہ صرف غلطی قبول کرتا ہے  بلکہ اس پر یاد دلانے والے کا شکریہ بھی ادا کرتا ہے ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندوں کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے غلطی قبول کرنے کی عادت بنائیں اِس کی برکت سے ہمارے لیے عاجزی کرنا آسان ہوجائے گا ۔

عاجزی اختیار کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کہ دوسروں کی ذات میں اچھائیاں ڈھونڈکر دل میں عاجزی پیدا کریں  مثلاً: کسی جاہل کو دیکھے تو دل میں کہے: اس نے جہالت کی وجہ سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی کی ہے اور میں نے علم ہونے کے باوجود اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی کی ہے لہٰذا میرے مقابلے میں اس کا عذر زیادہ قابل قبول ہے۔ جب کسی عالم کو دیکھے تو یوں کہے: ’’یہ اُن باتوں کا علم رکھتا ہے جن کا مجھے علم نہیں لہٰذا میں کس طرح اِس کی برابر ی کرسکتا ہوں۔‘‘جب آدمی اپنے خاتمے کو پیش نظر رکھے گا تو اپنے آپ سے تکبر دُور کرنے اور عاجزی پیدا کرنے پر قادر ہوسکے گا۔

[1] ۔۔۔۔فیض القدیر، حرف الھمزۃ، ۱ / ۵۹۹، تحت الحدیث: ۹۲۵ماخوذا ۔

[2] ۔۔۔۔مسلم، کتاب البر والصلۃ۔۔۔الخ ، باب استحباب العفووالتواضع ، ص‏۱۳۹۷، حدیث: ۲۵۸۸۔

[3] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۱۰۸۹ماخوذا ۔

[4] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ج۳، ص۱۰۰۱ ماخوذا۔

[5] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۱۰۰۲ملتقطاً۔

[6] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۱۰۰۴تا ۱۰۰۸ملتقطا۔

This will close in 20 seconds